ہومیوپیتھک ڈاکٹر ملک عرفان مجید کھوکھر کو ایک مریض نے بتایا کہ سانپ کندھے پر آ گرا آج ایک ایسا واقعہ سنایا جو نہ صرف چونکا دینے والا تھا بلکہ سبق آموز بھی۔ اُس نے بتایا کہ جیسے ہی اس نے اپنی دکان کا شٹر ایک جھٹکے سے اوپر اٹھایا، اُسے محسوس ہوا کہ جیسے کوئی چیز اس کے کندھے پر گری ہو۔ وہ چیز دراصل ایک سانپ تھا جو کندھے سے ٹکرا کر اس کے پاؤں کے ساتھ سیدھا ہوتا ہوا دکان کے اندر گھس گیا۔ اُس وقت اُس کے پاس کوئی ہتھیار یا بچاؤ کا ذریعہ نہیں تھا، اور سانپ بھی فوری نظر سے اوجھل ہو گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ خاکی رنگ کا وہی سانپ تھا جسے مقامی لوگ “تیلی مار ناگ” کہتے ہیں۔ لوگوں میں اس کو لے کر ڈر ہوتا ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ ایسے سانپ عموماً زہریلے نہیں ہوتے، مگر پھر بھی ان سے بچنا ضروری ہے کیونکہ کبھی کبھار سانپ کی صحیح پہچان مشکل ہوتی ہے۔ سانپ کے کان نہیں ہوتے، وہ زمین کی تھرتھراہٹ اور ہوا میں موجود خوشبو کے ذرات سے ماحول کا اندازہ لگاتا ہے۔ کچھ سانپ دیواروں پر بھی چڑھ سکتے ہیں، خاص طور پر اگر دیوار کھردری یا اینٹوں والی ہو۔ ایسے سانپ اکثر پرانی جگہوں، سامان کے ڈھیر، دراڑوں یا گیٹ کے اندرونی حصے میں چھپے ہوتے ہیں۔ اگر سانپ کاٹ لے تو فوری طور پر ہسپتال لے جانا ضروری ہے، چاہے سانپ زہریلا نہ ہو، کیونکہ انفیکشن یا الرجی جان لیوا ہو سکتی ہے۔ اس واقعہ سے یہ سیکھنے کو ملا کہ ہمیں دکان یا گھر کھولتے وقت احتیاط کرنی چاہیے، خاص طور پر رات کے وقت یا جب طویل عرصہ بند رہا ہو۔ شٹر کھولنے سے پہلے اسے ہلا لینا، روشنی ڈال کر دیکھ لینا، اور آس پاس صفائی رکھنا بہت ضروری ہے۔ کافور، نیفہ، لہسن یا نمک کا چھڑکاؤ بھی سانپوں کو دور رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ واقعہ سن کر میں نے سوچا کہ اسے دوسروں کے ساتھ ضرور شیئر کرنا چاہیے تاکہ ہم سب محتاط رہیں اور خود کو، اپنے بچوں اور کارکنوں کو محفوظ رکھ سکیں۔