khokharhomeopathy.com

شیتل کا قتل بڑا درد بھرا پیغام

*شیتل کا قتل* شیتل نے جب سامنے کھڑے موت کے سائے کو دیکھا تو نہ وہ خوفزدہ ہوئی، نہ اس کی آواز کانپی، نہ اس کے قدم ڈگمگائے۔ اس نے ایک جملہ کہا جس کی گونج ہر باشعور انسان کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ اس کی آنکھوں میں سوال نہیں تھے بلکہ یقین تھا، ایک ایسی تسلیم شدہ خودی کا یقین جو اختیار کی آزادی سے جنم لیتی ہے۔ یہ منظر صرف ایک خاتون کی جرات کا نہیں بلکہ ایک پورے معاشرے کے سامنے سوالیہ نشان ہے کہ آخر کب تک عورت کو اپنی پسند کی سزا موت کی شکل میں ملتی رہے گی۔شریعتِ اسلامیہ عورت کو وہ مقام عطا کرتی ہے جو کسی اور نظام میں دکھائی نہیں دیتا۔ قرآن پاک میں واضح ہدایت موجود ہے کہ بالغ عورت کی مرضی نکاح کے معاملے میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ سورہ النساء کی آیت نمبر 19 میں حکم دیا گیا ہے کہ “پس تم عورتوں کو نہ روکو کہ وہ اپنے شوہروں سے نکاح کر لیں جب کہ وہ آپس میں معروف طریقے سے راضی ہو جائیں”۔ اس آیت کی روشنی میں یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ عورت کو اس کے نکاح کے حق سے روکنا قرآن کے صریح حکم کی خلاف ورزی ہے۔ جب خدا خود عورت کو یہ اختیار دیتا ہے تو کسی سماجی، خاندانی یا قبائلی جبر کو یہ حق کیسے حاصل ہو گیا کہ وہ اس کی آزادی پر قدغن لگائے۔پاکستان کا آئین بھی فرد کی شخصی آزادی کو بنیادی حق تسلیم کرتا ہے۔ آئین کی دفعہ 9 کے تحت ہر شہری کو زندگی اور آزادی کا تحفظ حاصل ہے جبکہ دفعہ 35 ریاست کو پابند کرتی ہے کہ وہ خاندان، ماں، بچے اور عورت کی حفاظت کرے۔ ان اصولوں کے باوجود اگر ایک عورت صرف اپنی پسند کی بنیاد پر گولی کا نشانہ بن جائے تو یہ کسی ایک مجرم کا فعل نہیں بلکہ پورے نظام کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ہمارا معاشرہ صدیوں سے ایسے سانچوں میں عورت کو ڈھالتا آ رہا ہے جہاں اس کی خاموشی کو وفاداری اور اس کے سوال کو بدکرداری کہا جاتا ہے۔ جس عورت کی سوچ پر پہرے بٹھا دیے جائیں، جس کی مرضی کو خاندان کی غیرت سمجھ کر کچل دیا جائے اور جس کی پسند کو بغاوت قرار دیا جائے، اس کے لیے زندگی اور موت کا فرق مٹ جاتا ہے۔ شیتل کی خاموش مزاحمت اسی کچلے ہوئے جذبے کی پکار تھی جو برسوں سے دبایا جاتا رہا ہے۔یہ معاملہ محض انفرادی قتل کا نہیں بلکہ اس نفسیاتی، سماجی اور مذہبی منافقت کا آئینہ ہے جو عورت کے اختیار سے خوف کھاتی ہے۔ قاتل صرف وہ شخص نہیں جس نے گولی چلائی بلکہ وہ تمام ادارے، خاندان، اور رسوم اس جرم میں برابر کے شریک ہیں جو عورت کو فیصلہ سازی کا حق دینے کو فساد سمجھتے ہیں۔ ہم سب اس قتل کے مجرم ہیں کیونکہ ہم نے اجتماعی طور پر ایک ایسا ماحول پیدا کیا ہے جہاں عورت کو جینا سیکھانے کے بجائے سہنا سکھایا جاتا ہے۔اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے رویوں پر نظرثانی کریں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم عورت کو وہ مقام دیں جو اسے اس کے خالق نے دیا ہے۔ ہمیں تعلیمی اداروں، خطباتِ جمعہ، میڈیا اور قانون سازی کے ذریعے اس پیغام کو عام کرنا ہوگا کہ عورت کی پسند جرم نہیں بلکہ اس کا حق ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بیٹیاں محفوظ مستقبل کی طرف بڑھیں تو ہمیں سب سے پہلے اُن نظریات کو دفن کرنا ہوگا جو شیتل جیسے کرداروں کو موت کے گھاٹ اتارتے ہیں۔شیتل صرف ایک لڑکی کا نام نہیں، یہ ایک مقدمہ ہے۔ ایسا مقدمہ جس کی ایف آئی آر درج ہونی چاہیے ان تمام رسوم و روایات کے خلاف جو عورت کو محض ایک تابع مخلوق سمجھتی ہیں۔ اس واقعے کو محض ایک حادثہ سمجھ کر بھلا دینا درحقیقت آنے والی نسلوں کے لیے وہی زہر تیار کرنا ہے جس نے شیتل کی جان لے لی۔ ہمیں ایک اجتماعی عہد کی ضرورت ہے، ایسا عہد جو عورت کو جینے کا، سوچنے کا، اور اپنے فیصلے خود کرنے کا حق دے۔ ہمیں یہ وعدہ کرنا ہوگا کہ ہم نہ کسی کو جیتے جی ماریں گے، نہ اس کے خواب قتل کریں گے، اور نہ اس کی آزادی کا گلا گھونٹیں گے۔میں نے جب یہ واقعہ دیکھا، تو اندر سے ٹوٹ گیا۔ ایک ایسی بیٹی، جس کے پاس دلیل بھی تھی، دین بھی تھا، حق بھی تھا، اُسے ہم نے صرف اس لیے مار دیا کہ اُس نے اختیار کی بات کی۔ یہ کالم میرے دکھ، میرے ضمیر اور میری ذمے داری کا اظہار ہے۔ میرا دل اس قدر اذیت اور درد کے اس عالم میں ڈوبا ہے کہ میں اور کچھ لکھ اور بول نہیں سکتا ۔ *تحریر و ترتیب ، ہومیوپیتھک ڈاکٹر ملک عرفان مجید کھوکھر* *صحت کیلئے بہترین مشورے گروپ و چینل*

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *